Monday, April 20, 2020

جانیئے کہ اس دنیا میں اللہ تعالی کن لوگوں پر رحم نہیں کرتا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے اور بہت مہربان ہے۔

عربی کے قاعدے سے رحمن کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت وسیع ( Extensive) ہو، یعنی اس رحمت کا فائدہ سب کو پہنچتا ہو اور رحیم کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت زیادہ (Intensive) ہو، یعنی جس پر ہو مکمل طور پر ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں سب کو پہنچتی ہے، جس سے مومن کافر سب فیضیاب ہو کر رزق پاتے ہیں اور دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور آخرت میں اگرچہ کافروں پر رحمت نہیں ہوگی ؛ لیکن جس کسی پر (یعنی مومنوں پر) ہوگی، مکمل ہوگی کہ نعمتوں کے ساتھ کسی تکلیف کا کوئی شائبہ نہیں ہوگا۔ رحمن اور رحیم کے معنی میں جو یہ فرق ہے اس کو ظاہر کرنے کے لئے رحمن کا ترجمہ سب پر مہربان اور رحیم کا ترجمہ بہت مہربان کیا گیا ہے۔

(آسان ترجمہ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)۔

سوال: قارئین گرامی ! اوپر "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کے ترجمہ و تفسیر سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی دنیا میں مسلم و کافر سب پر مہربان ہے اور وہ رب العالمین یعنی سب کی پرورش کرنے والا ہے۔

یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کی جب اللہ تعالی دنیا میں سب پر مہربان ہے تو پہر خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے مسلم اور غیر مسلم جنگوں میں قتل ہوئے تو ان پر اللہ کو رحم کیوں نہیں آیا کہ وہ اپنی طاقت سے یا فرشتوں کے ذریعہ جنگیں روک دیتے تاکہ یہ سب قتل نہ ہوتے؟

اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لےکر اب تک یعنی 1441ھ تک بہت کروڑوں کی تعداد میں مسلم و غیر مسلم جنگوں میں قتل ہوئے۔ مثال کے طور پر جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم وغیرہ۔ حالیہ دنوں میں 9/11، افغانستان، عراق، لیبیا، شام، میانمار، فلسطین، پاکستان ہندوستان جنگ، مقبوضہ کشمیر، چیچنا، بوسینیا، سائوتھ افریقہ وغیرہ وغیرہ کہ یہاں جنگوں میں بہت سے معصوم مسلم و غیر مسلم قتل ہوئے، زخمی ہوئے، یتیم ہوئے، بیوہ ہوئے، غریب ہوئے، بے گھر ہوئے، بے وطن ہوئے، در بدر اور ذلیل و رسوا ہوئے وغیرہ وغیرہ۔

لہذا سوال تو بنتا ہے کہ ایک طرف اللہ تعالی اپنے کلام قرآن کریم کے شروع میں دعوی کرتا ہے وہ اس دنیا میں سب پر "رحمان" یعنی رحم کرنے والا ہے جبکہ دوسری طرف انسانوں کا صدیوں سے جنگوں کی وجہ سے یہ حال ہوا ہے تو اللہ کا رحم کہاں ہے؟

جواب: بہت سے مسلم و غیر مسلم کے ذہن میں مذکورہ سوال ضرور پیدا ہوسکتا ہے یا ہوتا ہوگا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جو قرآن کریم کے شروع ہی میں جو دعوی کیا ہے وہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔ قبل اس کے کہ میں تفصیل سے جواب دوں آپ سب سے ایک سوال پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی آنکھ والا ہو اور سامنے رواں دواں ٹریفک دیکھنے کے باوجود روڈ پار کرنے کی زبردستی کوشش کرے اور اس کا اکسیڈینٹ میں انتقال ہوجائے تو کیا آپ کو اس پر رحم آئےگا؟

یا کوئی نا بینا راستہ پر چل رہا ہو اور سامنے کنواں کا گڑھا ہو، کوئی بینا اسے آواز دے کہ رک جائو سامنے گڑھا ہے اور وہ سنی ان سنی کرکے اس میں گر کر مرجائے تو کیا آپ کو اس پر رحم آئےگا؟

میرے بھائی آپ سب کہو گے کہ آنکھ کا صحیح استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اور کان کو صحیح طرح استعمال نہ کرنے کی وجہ سے خود ان کی غلطی ہے اور اس نے ہٹ دھرمی دکھائی ہے اور اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ دونوں مارے گئے۔ اس میں کسی کا قصور نہیں ہے۔ آپ کہیں گے کہ جب کوئی خود اپنے آپ کو مارنا چاہے تو اس پر رحم کیسا؟

میرے بھائی جب آپ یہ سمجھ گئے تو پہر پہلے مندرجہ ذیل آیات کو غور سے پڑھ لیں تاکہ آپ کو مذکورہ سوال کا جواب مل جائے کہ اللہ تعالی واقعی " رحمان " یعنی سب پر رحم کرنے والے ہیں مگر بہت سے انسان اپنے دل و دماغ، آنکھ، کان، لاجک، اور کامن سینس کو صحیح طور پر استعمال نہ کرنے کی وجہ اور ہٹ دھرمی سے جان بوجھ کر جنگیں کرتے اور اللہ تعالی کی بات نہیں مانتے تو اس میں کس کا قصور ہے؟ اللہ تعالی نے قرآن کریم کہہ دیا ہے کہ ہم نے دونوں راستے دکھادیئے۔ بغیر خطرے والا اور خطرے والا راستہ بھی ۔ اب اگر کوئی خود خطرے والے راستہ پر چلتا ہے اور ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹ جاتا ہے تو اس میں اللہ کا قصور نہیں قصور اس خطرے والے راہ پر جان بوجھ کر چلنے والے کا ہے۔

اللہ تعالی نے ہر انسان کو اس دنیا میں اختیار دے کر بھیجا ہے کہ اچھائی کرو یا برائی تمہاری مرضی۔ نا تو ہم زبردستی نیکی  کرنے سے روکیں گے اور نہ بدی کرنے سے کیوں کہ ان دونوں صورتوں میں انسان بے بس اور مجبور ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اختیار دینے کے ساتھ ہدایات بھی دیں قرآن کریم اور صحیح احادیث کی صورت میں کہ کس طرح قتل اور مصائب سے بچنا ہے۔ لہذا اللہ تعالی ہر صورت میں سب پر مہربان ہے اور غلطیاں خود انسانوں کی ہیں۔ لوگ خود دل و دماغ اور عقل استعمال نہیں کرتے اور ہٹ دھرمی کرتے ہیں۔ دل و دماغ، عقل اور کامن سینس کے مطابق خدا صرف ایک ہی ہے۔ لوگوں نے بہت سے خدا کیوں بنا لئے جنکی وجہ سے جنگیں ہوتی اور پھر لوگ قتل ہوتے ہیں؟

(1) قرآن کریم سورہ نمبر 21 سورہ الانبیآء آیت نمبر 22

لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿۲۲﴾

ترجمہ:

اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے۔ (١٠) لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں۔

تفسیر:

10: یہ توحید کی ایک عام فہم دلیل ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر اس کائنات میں ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو ہر خدا مستقل خدائی کا حامل ہوتا، اور کوئی کسی کا تابع نہ ہوتا۔ اس صورت میں ان کے فیصلوں کے درمیان اختلاف بھی ہوسکتا تھا۔ اب اگر ایک خدا نے ایک فیصلہ کیا، اور دوسرے خدا نے دوسرا فیصلہ تو یا تو ان میں سے ایک دوسرے کے آگے ہار مان لیتا، تو پھر وہ خدا ہی کیا ہوا جو کسی سے ہار مان لے، یا دونوں اپنے اپنے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے زور لگاتے تو متضاد فیصلوں کی تنفیذ سے آسمان اور زمین کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اسی دلیل کی ایک دوسری تشریح یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ جو لوگ آسمان اور زمین کے لیے الگ الگ خدا مانتے ہیں، ان کا یہ عقیدہ اس لیے بالکل باطل ہے کہ مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ پوری کائنات ایک ہی مربوط نظام میں بندھی ہوئی ہے۔ چاند، سورج اور ستاروں سے لے کر دریاؤں، پہاڑوں اور زمین کی نباتات اور جمادات تک سب میں ایک ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان سب کو ایک ہی ارادے، ایک ہی مشیت اور ایک ہی منصوبہ بندی نے کام پر لگا رکھا ہے۔ اگر آسمان اور زمین کے خدا الگ الگ ہوتے تو کائنات میں اس ربط اور ہم آہنگی کا فقدان ہوتا، جس کے نتیجے میں یہ سارا نظام درہم برہم ہوجاتا۔

(2) قرآن کریم سورہ نمبر 23 سورہ المؤمنون آیت نمبر 91

مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنۡ وَّلَدٍ وَّ مَا کَانَ مَعَہٗ مِنۡ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿ۙ۹۱﴾

ترجمہ:

نہ تو اللہ نے کوئی بیٹا بنایا ہے، اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہوجاتا، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھائی کردیتے۔ پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔

(3) قرآن کریم سورہ نمبر 17 سورہ الاسراء آیت نمبر 42

قُلۡ لَّوۡ کَانَ مَعَہٗۤ اٰلِـہَۃٌ کَمَا یَقُوۡلُوۡنَ اِذًا لَّابۡتَغَوۡا اِلٰی ذِی الۡعَرۡشِ سَبِیۡلًا ﴿۴۲﴾

ترجمہ:

کہہ دو کہ : اگر اللہ کے ساتھ اور بھی خدا ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو وہ عرش والے (حقیقی خدا) پر چڑھائی کرنے کے لیے کوئی راستہ پیدا کرلیتے۔

تفسیر:

24: یہ توحید کے حق میں اور شرک کے خلاف ایک عام فہم دلیل ہے اور وہ یہ کہ خدا ایسی ذات ہی کو کہا جاسکتا ہے جو ہر کام پر قدرت رکھتی ہو، اور کسی کے حکم کے تابع نہ ہو۔ اب اگر اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی خدا ہوتے تو ان میں سے ہر ایک دوسرے سے آزاد ہوتا، اور سب کی قدرت کامل ہوتی۔ چنانچہ یہ دوسرے خدا مل کر عرش والے خدا پر چڑھائی بھی کرسکتے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کو خدا پر چڑھائی کرنے کی قدرت نہیں ہے، اور وہ خود اللہ تعالیٰ کے محکوم ہیں تو پھر وہ خدا ہی کیا ہوئے ؟ ثابت ہوگیا کہ کائنات میں حقیقی خدا تو ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔

استدلال: قارئین گرامی ! اوپر اللہ تعالی نے 3 آیات میں عقل، لاجک، اور کامن سینس سے ثابت کیا کہ خالق کائنات، خدا اور God ایک ہی ہے دوسرا کوئی نہیں جسکا نام اللہ ہے۔

مگر لوگوں نے ان آیات پر عقل، و لاجک اور کامن سینس استعمال نہ کرکے اللہ تعالی کی نافرمانی کی بلکہ بغاوت کیا۔ اس لئے اللہ تعالی نے بھی ایسے اندھے بہرے اور ہٹ دھرم لوگوں پر رحم نہیں کیا اور نہ ہی کرتا ہے۔ اللہ تعالی واضح طور پر حکم دیا کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو تاکہ تم پر رحم کیا جائے مگر اس کے باوجود تقریبا اس وقت سات ارب انسانون میں سے ساڑھے 6 ارب ان کی اور ان کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانتے حالانکہ لوگوں کو حکم ہے ان دونوں کی بات ماننے کی جیسا کہ اس آیت میں ہے۔

قرآن کریم سورہ نمبر 8 سورہ الانفال آیت نمبر 21

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ ہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡنَ ﴿۲۱﴾

ترجمہ:

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو کہتے تو ہیں کہ ہم نے سن لیا، مگر وہ (حقیقت میں) سنتے نہیں۔

قرآن کریم سورہ نمبر 3 سورہ آل عمران آیت نمبر 132

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۱۳۲﴾ۚ

ترجمہ:

اور اللہ اور رسول کی بات مانو، تاکہ تم سے رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔

آئیے اب ان آیات کو سمجھتے ہیں جن میں اللہ تعالی نے ان لوگوں کے بارے میں جو دل ودماغ، کامن سینس اور آنکھ کان کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتے، ان کے بارے میں کتنا سخت الفاظ استعمال کیا ہے؟

(1) قرآن کریم سورہ الفرقان سورہ نمبر 25 آیت نمبر 44،

اَمۡ تَحۡسَبُ اَنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ اَوۡ یَعۡقِلُوۡنَ ؕ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿٪۴۴﴾

ترجمہ:

”کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی اکثریت، سماعت کا یا عقل کا استعمال کرتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو محض جانور ہیں، یا ان سے بھی زیادہ بدتر۔“

(2) قرآن کریم سورہ نمبر 8 سورہ الانفال آیت نمبر 22

اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الۡبُکۡمُ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲۲﴾

ترجمہ:

یقین رکھو کہ اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ (١١)

تفسیر:

11: پچھلی آیت میں سننے سے مراد سمجھنا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ کانوں سے تو سننے کا دعوی کرتے ہیں، مگر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، اس لحاظ سے وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ بےزبان جانور اگر کسی کی بات کو نہ سمجھیں تواتنی بری بات نہیں ہے، ان میں یہ صلاحیت پیدا ہی نہیں کی گئی، اور نہ ان سے یہ مطالبہ ہے، لیکن انسانوں میں تو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی گئی ہے، اور ان سے یہ مطالبہ بھی ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر کوئی راستہ اپنائیں، اگر وہ سمجھنے کی کوشش نہ کریں تو جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔

(3) قرآن کریم سورہ نمبر 10سورہ یونس آیت نمبر 99

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًا ؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۹۹﴾

ترجمہ:

اور اگر اللہ چاہتا تو روئے زمین پر بسنے والے سب کے سب ایمان لے آتے (٤٠) تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرو گے تاکہ وہ سب مومن بن جائیں ؟

تفسیر:

40: یعنی اللہ تعالیٰ زبردستی سب کو مومن بنا سکتا تھا۔ لیکن چونکہ دنیا کے دار الامتحان میں ہر شخص سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی اور اختیار سے ایمان لائے، اس لیے کسی کو زبردستی مسلمان کرنا نہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے، نہ کسی اور کے لیے جائز ہے۔

قرآن کریم سورہ نمبر 10 سورہ یونس آیت نمبر 100

وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تُؤۡمِنَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَجۡعَلُ الرِّجۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾

ترجمہ:

اور کسی بھی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر مومن بن جائے، اور جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے، اللہ ان پر گندگی مسلط کردیتا ہے۔ (٤١)

تفسیر:

41: اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کائنات میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ لہذا اس کے بغیر کسی کا ایمان لانا بھی ممکن نہیں، لیکن جو شخص اپنی سمجھ اور اختیار کو صحیح استعمال کر کے ایمان لانا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے ایمان کی توفیق دے دیتا ہے، اور جو شخص عقل اور اختیار کو صحیح استعمال کر کے ایمان لانا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے ایمان کی توفیق دے دیتا ہے، اور جو شخص عقل اور اختیار سے کام نہ لے، اس پر کفر کی گندگی مسلط ہوجاتی ہے۔

(4) قرآن کریم سورہ نمبر 7 سورہ الاعراف آیت نمبر 179

وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾

ترجمہ:

اور ہم نے جنات اور انسانوں میں سے بہت سے لوگ جہنم کے لیے پیدا کیے۔ (٩١) ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

تفسیر:

91: یعنی ان کی تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے ایسے کام کریں گے جو انہیں جہنم تک لے جائیں گے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ تقدیر میں لکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ جہنم کے کام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، بلکہ بلا تشبیہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد اپنے کسی شاگرد کے حالات کے پیش نظر یہ لکھ کر رکھ دے کہ یہ فیل ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ استاد نے اسے فیل ہونے پر مجبور کردیا۔ بلکہ اس نے جو کچھ لکھا تھا، اس کا مطلب یہی تھا کہ یہ شاگرد محنت کرنے کے بجائے وقت ضائع کرے گا اور اس کے نتیجے میں فیل ہوگا۔


خلاصہ کلام: قارئین گرامی ! میرے خیال سے اب آپ کو بخوبی سمجھ آگیا ہوگا کہ اللہ تعالی کچھ لوگوں پر کیوں رحم نہیں کرتا؟ مزید تفصیل کے لئے عذاب والی آیات کو بھی دیکھ لیجئے گا جس میں اللہ تعالی انسانوں کے بداعمالی پر سزا کی وعید سنائی ہے۔

بہر حال اگر آج بھی دنیا کے تمام یا اکثر انسان بھی اللہ تعالی کو ہی خالق کائنات مان لیں اور دوسرے تمام زمینی و مصنوعی خدائوں کو چھوڑ دیں تو آج بھی اللہ تعالی رحم کرسکتا ہے اور گناہیں معاف کرکے جنگوں اور ان کی تباہی و بربادی، غربت و جہالت و جرائم اور لاعلاج بیماریوں جیسے کورونا وائرس وغیرہ سے بچا سکتا ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ یااللہ ہمارے غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں کو اپنی عقل، لاجک، سائنس اور کامن سینس استعمال کرنے کی توفیق عطا فرما تاکہ وہ انہیں استعمال کرکے آپ پر ایمان لا سکیں اور آپ کے علاوہ تمام زمینی و مصنوعی خدائوں کی اور مذہبی پیشوائوں کی عبادت چھوڑ صرف آپ کی عبادت کرنے والے بن جائیں تاکہ آپ ان پر رحم کرسکیں اور جو مسلم مکمل دین اسلام کی پیروی نہیں کرتے اور کثرت گناہ میں ملوث ہیں ان کو بھی ہدایت دے کہ وہ سب ہر قسم کی گناہیں چھوڑ دیں تاکہ آپ ان پر بھی رحم کرسکیں۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

مزید کسی سوال کے لئے رابطہ کر سکتے ہیں۔

آپ کا ایک انسانی و اسلامی بھائی مولانا ابرار عالم۔

0092 345 22 15 476

0092 333 21 00 668

www.rightfulreligion.com

دیوبندی, بریلوی, اہلحدیث صحیح اسلامی جماعتیں ہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم میرا دعوی ہے کہ دیوبندی, بریلوی, اہلحدیث یہ صحیح اسلامی جماعتیں ہیں اور ان کے عقائد بالکل درست ہے. اس پر نیچر (nature...